کرنل بھٹی

پاکستان کے نامور کوہ پیما کرنل عبدالجبّار بھٹی جنہوں نے 21 مئی کو دُنیا کی بلند ترین چوٹی ماؤنٹ ایورسٹ سر کی تھی واپسی پر ناخوشگوار واقعے کا شکار ہو گئے تھے۔ death zone میں اُنکے پاس موجود bottled supplementary oxygen کا ذخیرہ ختم ہو گیا جس کے باعث اُنہیں ایک رات کُھلے آسمان کے نیچے بغیر tent اور sleeping bag کے گُزارنا پڑی۔ جنہیں بعد ازاں ریسکیو کیا گیا۔ جو لوگ کوہ پیمائی اور altitude کے خطرات کو اچھی طرح سمجھتے ہیں اُنہیں صحیح اندازہ ھوگا کہ death zone میں بِنا آکسیجن، ٹینٹ اور سلیپنگ بیگ کے bivouac کرکے زندہ رہنا 100 فیصد معجزہ ھے۔ 
الحمد للہ اسوقت کرنل بھٹی صاحب ریسکیو ہو کر کھٹمنڈو ہسپتال میں زیرِعلاج ہیں اور بہت بہتر حالت میں ہیں حالانکہ اُنہیں frost-bite بھی ہو چُکی ھے تاہم جس willpower کا مظاہرہ اُنہوں نے ڈیتھ زون میں زندہ رہ کر کیا ھے اُس کےلیے وہ اب قومی ہیرو کا درجہ پاگئے ہیں۔
فیس بُک پر کچھ لوگ اُنکی اس کاوش پر تنقید کر کے اپنی بونی اور گھٹیا سوچ کا مظاہرہ کر رھے ہیں۔ ایک صاحب نے لکھا ھے کہ کرنل صاحب آسان ترین چوٹی کو سر کرنے میں بلاوجہ جان جوکھوں میں ڈال بیٹھے ہیں حالانکہ یہ چوٹی تو بچے اور بُوڑھے بھی سر کر چُکے ہیں وغیرہ وغیرہ۔
یہاں مَیں کُچھ حقائق سامنے رکھنا چاہتا ہوں جن کا جاننا نہ صرف پاکستان کی ٹریکنگ اور کوہ پیما کمیونٹی کےلیے ضروری ھے بلکہ اُن حاسدین کے بھی مُنہ پر طمانچہ ھوگا جو کرنل عبدالجبّار بھٹی کی اس کامیابی کو چھوٹا ظاہر کرنے کی ناکام کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔
گُزارش ھے کہ دو برس قبل یعنی 2014 تک ماؤنٹ ایورسٹ کا death zone بالکل سیدھی سادی climb پر مبنی تھا اور محض فزیکل فٹنس درکار تھی کوئی بہت خاص تکنیکی پیچیدگی نہیں تھی۔ جو کوہ پیما بیس کیمپ پر proper acclimatized ہو کر summit push پر جاتے تھے وہ نیپالی شرپاؤں کی مدد سے باآسانی ایورسٹ سر کر لیتے تھے۔ بلکہ کچھ کیسز میں تو شرپا حضرات کچھ ایکسٹرا ڈالرز لیکر کوہ پیماؤں کو اپنے بازوؤں، کندھوں پر اُٹھا کر بھی لیجا کر ایورسٹ سر کروا دیتے تھے۔ دروغ بر گردنِ راوی لیکن بقول ایک شرپا کے پاکستان کی خاتون کوہ پیما جس نے پہلی بار ایورسٹ سر کی اُسے بھی اَدھ موئے حالت میں شرپاؤں نے اُٹھا کر ایورسٹ سر کروائی۔ واللہ عالم درست ھے یا غلط لیکن یہ بات پاکستانی کوہ پیمائی حلقوں میں زبان زدِ عام ھے۔
بہرحال اب آتے ہیں سال 2015 میں جب نیپال میں انتہائی خطرناک زلزلہ آیا جس میں نہ صرف 8 سے 10 ہزار ہلاکتیں ہوئیں بلکہ اس زلزلے نے ہمالیہ ریجن کو جڑوں سے ہلا کر رکھ دیا۔ بہت سے پہاڑوں کا جغرافیہ تک تبدیل ہوگیا اور نیپال کی topography میں واضح تبدیلی آئی۔ زلزلہ کے باعث بہت سے نیپالی شرپاؤں کی ہلاکت کی وجہ سے ماؤنٹ ایورسٹ کے 2015 کے climbing season کو منسوخ کر کے ایورسٹ ریجن کو بند کر دیا گیا جسے 2016 میں دوبارہ کھولا گیا تو چوٹی تک پہنچنے والے کچھ کوہ پیماؤں نے نشاندہی کی کہ death zone میں چوٹی سے لگ بھگ 80 سے 90 میٹر عین نیچے جو برف پوش حصّہ مشہورِ زمانہ "Hillary Step" کے نام سے جانا جاتا تھا اُس پر سے برف ہٹ گئی ھے اور ایک بڑا chunk of ice پگھل یا گِر چُکا ھے۔ یہ وہ مقام تھا جہاں سے کوہ پیما بڑے آرام سے fixed rope کی مدد سے چل کر چوٹی پر پہنچ جاتے تھے۔ یہاں یہ یاد رہے کہ ماؤنٹ ایورسٹ سطح سمندر سے 8848 میٹر بلند ھے جبکہ Hillary Step چوٹی کے عین نیچے 8750 میٹر سے لیکر 8790 میٹر کے درمیان واقع ھے۔ یہ لگ بھگ 40 سے 50 vertical meters کا ٹُکڑا 2015 کے زلزلے کے بعد اتنا vulnerable ہو چکا ھے کہ اس جگہ سے rocks اور boulders بالکل expose ہو چُکے ہیں جس سے مُراد یہ ھے کہ کوہ پیماؤں کو مستقبل میں extra effort کے ساتھ rock climbing کر کے چوٹی سر کرنی پڑے گی۔ 2016 میں پہلی بار اِس difficulty level کی نشاندہی ہوئی جو اِس سال 2017 میں سب سے پہلے چوٹی سر کرنے والے چند کوہ پیماؤں نے کنفرم کردیا تھا کہ Hillary step اب پہلے جیسا نہیں رہا، اس لیے بہت دھیان اور احیتاط چاھییے ہوگی۔ یہی وجہ ھے کہ ماؤنٹ ایورسٹ کو 2014 سے پہلے تک ہر سال لگ بھگ 500 سے 600 کے قریب کوہ پیما سر کر جاتے تھے۔ سال 2016 میں بھی 641 کوہ پیماؤں نے سر کیا تھا اور کُل 6 اموات ہوئی تھیں اُن میں سے بھی 1 موت دُنیا کی چوتھی بڑی چوٹی Lohtse پر ہوئی جو ماؤنٹ ایورسٹ کے پہلو میں ہی واقع ھے۔ سال 2017 میں اب تک محض 101 کوہ پیما یہ چوٹی سر کر پائے ہیں اور 9 اموات رپورٹ ہو چُکی ہیں۔ ماؤنٹ ایورسٹ کی تاریخ میں غالباً No.of successful summit to No.of deaths ratio کے لحاظ سے یہ اب تک کی بلند ترین شرح ھے۔ اس لحاظ سے اندازہ کیجیے کہ اب ماؤنٹ ایورسٹ ویسی "حلوہ" نہیں رہی جیسی ماضی میں سمجھی جاتی رہی ھے۔
اب آتے ہیں کرنل عبدالجبّار بھٹی صاحب کے کوہ پیمائی قد کاٹھ کی طرف۔ تو جناب یہ ایک مُسلّمہ حقیقت ھے کہ کرنل صاحب نہ صرف حد درجہ صاحبِ انکسار اور شریف النّفس انسان ہیں کہ آپکو پاکستان کی کوہ پیما کمیونٹی میں ایسا اعلیٰ پائے کا انسان نہیں مِلے گا بلکہ پاکستان کی نوجوان کلائمبنگ اور ٹریکنگ کمیونٹی خصوصاً میدانی علاقوں کے نوجوانوں کےلیے ایک اُمید کی کِرن بھی ہیں۔ الپائن کلب آف پاکستان کے تمام کرتا دھرتاؤں سے لیکر ایورسٹ سر کرنے والے نذیر صابر اور ثمینہ بیگ تک کسی پاکستانی کوہ پیما نے اب تک اپنی کوئی legacy پیدا کرنے میں کامیابی حاصل نہیں کی ھے جبکہ کرنل عبدالجبّار بھٹی اسوقت پاکستان کی نوجوان کوہ پیما اور ٹریکنگ کمیونٹی کے بِلا شرکتِ غیرے mentor ہیں۔ آپکی legacy میں سَعد مُحمّد، ڈاکٹر نوید، احمد مُجتبیٰ علی، کمال حیدر اور آصف بھٹّی شامل ہیں جو پاکستان میں 6000 اور 7000 میٹر تک کی بلند چوٹیاں سر کر چُکے ہیں اور بہت سے سپوت کرنل صاحب سے رہنمائی لیکر کوہ پیمائی میں نام پیدا کرنے کےلیے پَر تول رہے ہیں۔ کرنل بھٹّی صاحب واحد غیر گلگت-بلتستانی یا یُوں کہہ لیں کہ واحد پنجابی کوہ پیما ہیں جنہوں نے ماؤنٹ ایورسٹ سمیت 8000 میٹر سے بلند 3 چوٹیاں سر کر رکھی ہیں۔ آپ ماؤنٹ ایورسٹ کے علاوہ 1985 اور 1986 میں Broad Peak اور Gasherbrum II بھی سر کر چُکے ہیں۔ یہ اعزاز بھی صرف کرنل عبدالجبّار بھٹّی صاحب کو ہی حاصل ھے کہ اُن کیساتھ بیک وقت اُنکے شاگردِ خاص سَعد مُحمّد نے بھی ماؤنٹ ایورسٹ attempt کی اور 7053 میٹر کی بلندی سے واپس ہوئے۔ اگر کرنل بھٹّی صاحب کو ریسکیو کرنا آڑے نہ آتا تو اگلے دو تین دن میں سعد نے بھی ایورسٹ سر کر لینی تھی، تاہم اس میں بھی کوئی اتنا ملال نہیں ھے کیونکہ سعد ابھی نوجوان ہیں اور محض 35 برس کے ہیں، اللہ اُنکی عُمر دراز کرے تو ابھی 8000 میٹر کی بلندی کو چُھونے کےلیے اِن شاء اللہ اُن کے پاس بہت وقت ھے۔ اور کرنل بھٹّی صاحب کی یہ کامیابی اِن شاء اللہ میرے سمیت اُن کے چاہنے والوں اور کوہ پیمائی میں اُنکی تقلید کرنے والوں کےلیے ایک بہت بڑی کامیابی اور نیک شگون ھے۔ اگر سچ پُوچھیے تو یہ اُن کے چاہنے والوں کی خالص دُعائیں ہی تھیں جنہوں نے ایورسٹ کے death zone میں موت کو چکمہ دے کر بچ نکلنے میں اُنہیں کامیاب کیا۔
مَیں کرنل عبدالجبّار بھٹّی کی مُکمّل صحتیابی کےلیے بھر پور دُعا کی اپیل کے ساتھ توقّع رکھتا ہوں کہ اُنکی وطن واپسی پر پاکستان کی نوجوان کوہ پیما اور ٹریکنگ کمیونٹی، تمام ایڈونچر آرگنائزیشنز اور ٹُوّر آپریٹرز اُنکا ایسا فقیدالمثال استقبال کریں گے کہ اُن کے حاسدین کا منہ بند ہو جائے گا۔ کرنل عبدالجبّار بھٹی پاکستان کی نوجوان کوہ پیمائی اور ٹریکنگ کمیونٹی کےلیے اچھے مستقبل کی اُمید ہیں۔ ہر پاکستانی کو ایورسٹ پر اُنکی اس ناقابلِ فراموش کوہ پیمائی پر قیامت تک فخر رھے گا۔
دُعاگو. 
(عمران حیدر تھہیم)

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی